فیکٹ چیک: ’حجاب گرل‘ مسکان کا نہیں ہوا انتقال، فرضی پوسٹ ہو رہی وائرل

شواس نیوز نےاس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ دعوی فرضی ہے۔ مسکان کے والد نے خود وشواس نیوز سے بات کرتے ہوئے اس خبر کو مسترد کیا ہے۔ اس کے علاوہ وائرل پوسٹ میں استعمال کی گئی پہلی تصویر 2017 کی کشمیری طالبا کی ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر دو تصاویر کا ایک کولاج وائرل ہو رہا ہے جس کی پہلی تصویر میں ایک لڑکی کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور دوسری تصویر میں کرناٹک میں ہوئے حجاب متنازعہ کے بعد سرخیوں میں آئی مسکان خان کی تصویر ہے۔ صارفین اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے دعوی کر رہے ہیں کہ یہ مسکان کا کسی نے قتل کر دیا ہے اور ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ جب شواس نیوز نےاس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ دعوی فرضی ہے۔ مسکان نےخود وشواس نیوز سے بات کرتے ہوئے اس خبر کو مسترد کیا ہے۔ اس کے علاوہ وائرل پوسٹ میں استعمال کی گئی پہلی تصویر 2017 کی کشمیری طالبا کی ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’انا للہ و انا الیہ راجعون! مسکان نہیں رہیں۔ بھارت میں اللہ اکبر کی صدا سے دنیا کو ہلا دینے والی لڑکی، وہ مسکراتی بہن کو کافروں نے قتل کر دیا!!! اللہ اس بہن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،،،،،،،،آمین‘۔

پوسٹ کے آرکیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا مسکان سے متعلق جو دعوی وائرل کیا جا رہا ہے اس میں کتنی تصداقت ہے۔ دعوی کے مطابق ان کا کسی نے قتل کر دیا ہے۔ نیوز سرچ میں ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی۔ اگر ایسی کوئی بھی خبر سچ ہوتی تو وہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی۔

ہم نے اس کی تصدیق کے لئے مسکان خان سے رابطہ کیا اور انہوں نے وائرل دعوی کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور عمرہ کرنے کے لئے سعودی عرب کے مکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔ مسکان کے والد نے ہمارے ساتھ مسکان کی سعودی کی تصویر بھی شیئر کی جس میں انہیں صحیح سلامت دیکھا جا سکتا ہے۔

اب تک کی پڑتال سے یہ تو واضح تھا کہ مسکان خان کے قتل کا دعوی فرضی ہے۔ پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے وائرل تصویر کی پہلی تصویر جس میں ایک لڑکی بے حوشی کی حالت میں نظر آرہی ہے کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر میڈ ڈے کی ویب سائٹ پر 30 اپریل 2017 کو اپ لوڈ ہوئی ملی۔ خبر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، یہ تصویر کشمیر کی ہے جب سری نگر کے اسکول کی طالبات نے پتھر بازی کی تھی اور اسی میں یہ طالبا زخمی ہو گئی تھی۔ مکمل خبر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔

فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کو 534 لوگ فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: شواس نیوز نےاس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ دعوی فرضی ہے۔ مسکان کے والد نے خود وشواس نیوز سے بات کرتے ہوئے اس خبر کو مسترد کیا ہے۔ اس کے علاوہ وائرل پوسٹ میں استعمال کی گئی پہلی تصویر 2017 کی کشمیری طالبا کی ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts