نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ جموں و کشمر سے دفعہ 370 کے منسوخ ہو جانے کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر فرضی خبروں کا سیلاب آگیا ہے۔ اسی طرز میں سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ اس تصویر میں زخمی بچے اور اس کے ساتھ ایک خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر کشمیر کی ہے۔
وشواس ٹیم نے اپنی پڑتال میں یہ وائرل ہو رہا دعویٰ فرضی پایا۔ اصل میں، یہ تصویر 2009 میں فلسطین میں ہوئے اسرئیل کے میزائیل حملہ میں زخمی لوگوں کی ہے۔
سوشل میڈیا کے فیس بک پلیٹ فارم پر ’سردار ثاقب شاہین‘ نام کے صارف ایک پوسٹ کو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ اس پوسٹ میں ایک تصویر دی گئی ہے جس میں ایک زخمی بچہ اور اس کے ساتھ خاتون نظر آرہی ہے۔ اس تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے
Faces tell the story !!
India’s brutality has turned Kashmir into a living hell…
Pray for kashmir..
Stand for kashmir..
#wewantfreekashmir
پوسٹ میں لکھے کیپشن کو اردو میں کچھ طرح پڑھیں گے۔ چہرے کہانی بیان کرتے ہوئے!! ہندوستان کی بربریت نے کشمیر کو جیتا- جاگتا دوذخ بنا دیا ہے
کشمیر کے لئے دعائیں کرو
کشمیر کے لئے آواز اٹھاو
پڑتال شروع کرنے کے لئے سب سے پہلے اس تصویر کو ینڈکس رورس امیج میں اپ لوڈ کر کے سرچ کیا۔ سرچ کے نتائج میں ہمیں زیادہ تر ایسے لنک ملے جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ تصویر کشمیر کی نہیں ہے۔
ہم نے ایک ایک کر کے ان لنک کو کھنگالنا شروع کیا۔ ہمیں گیٹی ایمجز کی ویب سائٹ پر یہ تصویر ملی۔ اس تصویر کے ساتھ سرخی دی گئی تھی
Palestinians Attend Funeral Of Five Young Balalusha Sisters.
جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا ہے: فلسطینیوں نے پانچ نوجوان بالالوشہ بہنوں کے جنازے میں شرکت کی۔
اس تصویر کے ساتھ دی گئی تفصیل کے مطابق:غازہ۔ 29 دسمبر: سمیرا بالوشہ (34) (داہنے) اپنی بیٹی ایمان (15) اور بیٹے محمد (15 ماہ) کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اپنی بیٹی جوہر بالوشہ (4 سال عمر) اور اس کی 4 بہوں کے جنازے کو دیکھنے کا انتظار کر رہی ہے، جو 29 دسمبر 2008 کو ہوئی شمالی غزہ میں اسرئیلی میزائل حملہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جوہر بالوشہ اور اس کی چار بہنیں ایک اسرائیلی فضائیہ حملہ کے دوران اپنی جان گاوا بیٹھے جب وہ اپنے کمرے میں ایک ساتھ سو رہی تھیں۔
اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ یہ تصویر کشمیر کی نہیں ہے۔ اطلاعات کی تصدیق کے لئے ہم نے تھوڑی اور پڑتال کی۔ ہمیں الجزیرہ کی خبر کا ایک لنک ملا جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس خبر کی سرخی تھی
In the US, Gaza is a different war
یہ خبر 7 جنوری 2009 کو شائع کی گئی تھی۔
اب ہم نے اس تصویر کی تصدیق کے لئے دینک جانگر کے جموں و کشمیر کے ایڈیٹر ابھیمنیو شرما سے بات کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’’یہ تصویر کشمیر کی نہیں ہے‘‘۔
اب ہم نے اس پوسٹ کو وائرل کرنے والے صارف ’سردار ثاقب شاہین‘ کے فیس بک اکاونٹ کی سوشل اسکیننگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صارف کو 7072 لوگ فالوو کرتے ہیں اور یہ ایک خاص برادری سے متعلق خبروں کو ہی پوسٹ کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں یہ وائرل ہو رہا پوسٹ فرضی ثابت کیا۔ اصل میں، یہ تصویر 2009 میں فلسطین میں ہوئے اسرائیل کے فضائیہ حملہ میں زخمی ہوئے متاثرین کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔