فیکٹ چیک: زنجیروں میں بندھی نظر آرہی مسلم خواتین کی یہ تصویر ایڈیٹڈ ہے

افغانستان میں طالبان کی واپسی کےبعد خواتین کے پیروں میں بندھی زنجیروں والی یہ تصویر ایڈیٹڈ ہے۔ اصل تصویر میں خواتین عام طور پر سڑک پر جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور یہ تصویر عراق کے بغداد میں سال 2003 میں کھینچی گئی تھی۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی متعدد پوسٹ وائرل ہو رہی ہیں، جسےطالبان کی واپسی سے جوڑ کر وائرل کیا جا رہا ہے۔ ایسی ہی وائرل ہو رہی ایک تصویر ملی جس میں ایک ادھیڑ عمر کےشخص کے پیچھے برقع پہنے تین خواتین کو جاتےہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر میں تین خواتین کے پیروں میں زنجیرے بندھی ہوئی ہیں جس کا سرا آگ چل رہے ادھیڑ عمر کے شخص کے ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی غلط نکلا۔ وائرل ہو رہی تصویر ایڈیٹڈ اور اولٹرڈ ہے۔ اصل تصویر میں سڑک پر چلتےہوئےعام لوگوں کی ہے، جس میں ایڈیٹنگ کی مدد سے زنجیروں کو جوڑا گیا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

ٹویٹر صارف نے وائرل تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا، ’کبھی عام تو کبھی ظالم کبھی نسل پرست تو کبھی لٹیرے جیسے کسی کسی لقب سے نوازہ کبھی جے چندر تو کبھی منموہن سنگھ پرالظام لگائے، کبھی جودھا کا نام نیچا دکھایا تو کبھی مہارانا یا سانگا کے جنگ ہار جانے کی دہائی دے کر،جب بھی قوم نے جان کی قربانی مانگی ، کشتری کی زندگی کی ہتھیلی‘‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

تصویر کےساتھ دئےگئےدعوی کی حقیقت جانچنے کے لئے ہم نے گوگل رورس امیج سرچ کی مدد لی۔ سرچ کے دوران موڈرن ڈپلومیسی ڈاٹ ای یوکی وب سائٹپر29اگست 2017 کو شائع ہوئی ایک خبر ملی جس میں اصل تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر میں صاف طور پردیکھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی خاتون پرپیروں میں زنجیریں نہیں بندھی ہوئی ہیں۔


حالاںکہ،اس تصویر کے فوٹوگرافر اور اس سے متعق ہمیں یہاں کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئی۔ اسے پتہ کرنے کے لئے ہم نے ویب سائٹ پر لگی اس تصویر کو رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں ٹریک ارتھ کی فوٹو گیلری میں یہ تصویرملی۔

Source- trekearth.com

یہاں دی گئی معلومات کے مطابق یہ تصویر بغدادکے سٹی سنٹرکی جانب جاتے ہوئے لوگوں کی ہے۔ ویب سائٹ پر تصویر کی کاپی رائٹ مرات دجیول کے نام پر تھی اور یہیں پرہمیں ان سے رابطہ کےلئے ای میل بھی ملا۔

तस्वीर के साथ मौजूद फोटोग्राफर और लोकेशन एवं समय की जानकारी

وائرل تصویر کو لےکر ای میل کے ذریعہ ہم نے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا، ’میں استانبل رہنے والا ایک فوٹو جرنسلٹ ہوں اور 30 سال سے تصاویر لے رہاہوں۔ جس تصویر کا ذکر آپ نےکیا ہے اسے 2003 میں کھینچا تھا۔ شمالی عراقی شہر اربیل میں نماز جمعہ کے بعد ہلاک ہونے والے عراقی شہریوں کے لیے ایک یادگاری اور سوگ کی تقریب منعقد کی گئی۔ جب لوگ تقریب کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ، میں نے یہ دیکھا۔ یہ ایک قدرتی تصویر ہے جو فوری طور پر لی گئی ہے۔ بدقسمتی سے میری بہت سی تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ، بشمول اس تصویر کے۔ یہ تصویر زیادہ تر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے اور میں نے کئی بار لوگوں کو اس کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ لیکن انہیں پرواہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ مجھے اپنی اصلی تصاویر کے لیے یاد رکھا جائے گا ، چھیڑ چھاڑ کی گئی تصاویر کے لیے نہیں۔

انہوں نے کہا ، ‘تصویر میں موجود خواتین ایک دوسرے کو جانتی تھیں ، لیکن وہ مرد کو جانتی تھیں ، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ دجول نے اصل تصویر بھی ہمارے ساتھ ای میل پر شیئر کی۔

दुज्योल की तरफ से विश्वास न्यूज से साझा की गई ऑरिजिनल तस्वीर

دونوں تصویروں کے درمیان فرق ذیل کے کولیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اصل تصویر میں کسی بھی عورت کے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے اور ایڈٹنگ کی مدد سے اس تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے خواتین کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دی گئی ہیں۔ دوسرا ، یہ تصویر عراق کے شہر بغداد کی ہے اور اس کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وائرل تصویر کو جھوٹے دعوے کے ساتھ شیئر کرنے والے صارف کو سوشل میڈیا پر 2000 سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔

نتیجہ: افغانستان میں طالبان کی واپسی کےبعد خواتین کے پیروں میں بندھی زنجیروں والی یہ تصویر ایڈیٹڈ ہے۔ اصل تصویر میں خواتین عام طور پر سڑک پر جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور یہ تصویر عراق کے بغداد میں سال 2003 میں کھینچی گئی تھی۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts