نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کئے جانے کے بعد ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کشمیر کی خواتین احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کی سڑکوں پر اتر آئی ہیں اور قومی میڈیا ان کے مظاہرہ کو نہیں دکھا رہا ہے۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں وائرل ہو رہا ویڈیو گمراہ کن ثابت ہوتا ہے۔ کشمیر میں ہوئے احتجاجی مظاہرہ کا ویڈیو کافی پرانا ہے، جو ایک مرتبہ پھر سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔
فیس بک پر شیئر کئے گئے پوسٹ کا اردو ترجمہ: ’ہزاروں کشمیری خواتین گلیوں میں آگئی ہیں آزاردی- آزادی کرتے ہوئے۔ کوئی بکاؤ میڈیا نہیں دکھائےگا۔ اس کو کسی کشمیری لڑکے نے آگے بھیجا ہے۔ آپ لوگ اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ غلامی گلے سے اتارنے کے لئے دل سے ڈر نکالنا پڑتال ہے۔ آزادی لینے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘۔
پڑتال کئے جانے تک اس ویڈیو کو 2000 سے زائد مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔
ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ دفعہ 370 کو منسوخ کئے جانے کے بعد یہ ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس سے اس کے تازہ ترین ہونے کی افواہ پھیلائی جا رہی ہے۔ ان ویڈ ٹول کی مدد سے ملے کی فریمس کو جب ہم نے رورس امیج کیا تو ہمیں ایک فیس بک پروافائل ’
‘Documenting Oppression Against Muslims – DOAM’
ملی، جہاں اس ویڈیو کو تقریبا 8 ماہ قبل یعنی 11 دسمبر 2018 کو اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہوا ہے، ’’کشمیر کی آزادی کی حمایت میں کشمیری خواتین کی ریلی‘‘۔
اس کے بعد ہمیں اسی تاریخ کے آس پاس کے دو یو ٹیوب ویڈیو ملے۔ ایک یو ٹیوب ویڈیو 12 دسمبر 2018 کو شیئر کیا گیا ہے۔ ’’پی ایم ایل این ویڈیوز‘ نام کے صارف نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’میرا کشمیر، ہے حق ہمارا آزاردی‘‘۔
ویڈیو کے دسکرپشن میں لکھا ہوا ہے، ’’ اندھی دنیا کو یہ ابلتا ہوا لاوہ نظر نہیں آتا .. دوستوں کشمیر میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر ہے .. کبھی ایسا جوش و جذبہ دیکھنے کو نہ ملا …‘‘۔
وہیں، دوسرا یوٹیوب ویڈیو 15 دسمبر 2018 کو ’مارکھور ٹی وی‘ (نیچے انگریزی میں دیکھیں)کے ہینڈل سے اپ لوڈ کا گیا ہے۔ اس ویڈیو کے ساتھ بھی وہی دعویٰ (کشمیر کی آزادی) کیا گیا ہے۔
Markhor Tv
نیوز سرچ میں ہمیں ’مڈل ایسٹ آئی‘ اور ’بائی لائن ٹائمس‘ کے کالم نگار سی جے ورلیمن کا آفیشیئل ٹویٹر ہینڈل ملا۔ انہوں نے 12 دسمبر 2018 کو اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’کشمیر کی آزادی کی حمایت میں مظاہرہ کرتی کشمیری خواتین‘‘۔
یہی ویڈیو ایک بار پھر سے وائرل ہو رہا ہے، جسے پاکستانی چینل نے حالیہ معاملہ بتاتے ہوئے دکھایا ہے۔ پاکستانی نیوز چینل ‘اب تک’ کے ویری فائڈ یو ٹیوب ہینڈل پر 10 مارچ 2019 کو اپ لوڈ کئے ویڈیو بولیٹن میں اس ویڈیو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی چینل نے اس ویڈیو کو دکھاتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاملہ کب کا ہے۔ اسی گمراہیت کے سبب پاکستانی صحافیوں نے اس ویڈیو کو پھر سے شیئر کرنا شروع کیا۔
پاکستانی صحافی رضا احمد رومی کے ٹویٹر ہینڈل پر بھی اس ویڈیو کو دیکھا جا سکتا ہے، جسے انہوں نے 11 مارچ 2019 کو ٹویٹ کیا ہے۔ پاکستانی چینل اب تک کے ویڈیو بولیٹن میں دکھائے جانے کے اگلے دن ہی انہوں نے اس ویڈیو کو اپنے پروفائل سے شیئر کیا ہے۔
وائرل ویڈیو 7 اگست کا ہے، تاہم 5 اگست 2019 کی آدھی رات سے ہی سری نگر میں دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی وجہ سے وہاں ایسے کسی مظاہرہ کے امکانات نہیں ہے۔ اے این آئی کے ٹویٹ سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
نتیجہ: کشمیر میں ’’آزادی‘‘ کا مطالبہ کرتی کشمیری خواتین کا ویڈیو سال 2018 کے آخر میں ہوئے احتجاجی مظاہرہ کا ہے، جو پھر سے سوشل میڈیا پر گمراہ کرنے والے دعوےٰ کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔