فیکٹ چیک: سالوں پرانی یہ تصویر جنوبی ہندوستان کی ہے، دہلی تشدد سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں
ہاتھوں میں پتھر لئے جوان کی جس تصویر کو دہلی پولیس کی بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے، وہ جنوبی ہندوستان کی سالوں پرانی تصویر ہے۔
- By: Abhishek Parashar
- Published: Mar 2, 2020 at 07:04 PM
- Updated: Mar 3, 2020 at 11:25 AM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اور حمایت میں ہوئے مظاہرے کے دوران تشدد کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک پولیس اہلکار کی تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں ان کے ہاتھوں میں پتھر نظر آرہا ہے۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر دہلی پولیس کے جوان کی ہے۔ وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعویٰ غلط نکلا۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
فیس بک صارف ’منا بھائی راجہ‘ نے ایک تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’آج انہیں کی وجہ سے دہلی کا ماحول خراب ہے‘‘۔
پڑتال
حالاںکہ وائرل پوسٹ میں تصویر کا استعمال کیا گیا ہے، اسلئے ہم نے اسے گوگل رورس امیج کی مدد سے سرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رورس امیج کئے جانے پر ہمیں ایسے لنک ملے، جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔
سرچ میں یہ پتہ چلا کہ اس تصویر کو متعدد تمل زبان کے صارفین نے کچھ سال قبل پولیس کے ظالمانہ برتاؤ کا دعویٰ کرتے ہوئے شیئر کیا ہے۔ ویری فائڈ صارف واسوکی بھاسکر نے اس تصویر کو 24 جنوری 2017 کو اپنی ٹائم لائن پر شیئر کیا ہے۔
فیس بک صارف ’جلی کوٹی ویرسز پیٹا‘ نے بھی اس تصویر کو 24 جنوری 2017 کو اپنی پروفائل پر شیئر کیا ہے۔
ایڈوانس سرچ میں ہمیں یہ تصویر اور بھی پرانی تاریخ کے ساتھ متعدد صارفین کی پروفائل پر شیئر نظر آئی۔ فیس بک صارف ’نرملا گری کالج ایس ایف آئی‘ نے اس تصویر کو اپنی پروفائل پر 23 اگست 2013 کو شیئر ہوا ہے۔
سرچ میں ہمیں یہ تصویر ’نیوز گلٹز۔ نیکسٹ جنریشن تمل نیوز چینل‘ پر 23 جنوری 2017 کو اپ لوڈ کئے گئے ویڈیو کے تھمب نیل میں بھی نظر آئی۔ ویڈیو کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، جلی کٹو کے دوران ہوئے ایک مظاہرے کے تشدد میں تبدیل ہونے کے بعد پولیس اہلکاروں کو گاڑیوں میں آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یعنی جس تصویر کو دہلی میں ہوئے تشدد کے دوران دہلی پولیس کے جوان کی پتھربازی کے دعویٰ کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے، وہ ڈجیٹل پلیٹ فارم پر 2013 سے موجود ہے، جبکہ دہلی میں تشدد کی شروعات 23 فروری 2020 کو ہوئی۔
نیوز رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی دہلی کے جافرآباد اور موجپورر علاقہ میں سی اے اے کے خلاف اور حمایت کے درمیان ہوئے تشدد کے بعد کمیونل عناصروں نے مکانوں، دکانوں اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی چاندباغ اور بھجن پورا علاقوں میں بھی تشدد ہوا۔ اس تشدد میں دہلی پولیس کے ایک جوان کی بھی موت ہو چکی ہے۔
ہمارے ساتھی دینک جاگرن کے چیف رپورٹر سوادیش کمار نے کہا کہ تصویر میں نظر آرہا جوان دہلی پولیس کا نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا، ’’تصویر میں دکھ رہے جوان کا یونی فارم ہاف سائز کا ہے، جبکہ دہلی پولیس کے جوان ابھی بھی فل یونی فارم میں ہیں‘‘۔ پولیس کے جوان گرمیوں میں ہاف یونی فارم پہنتے ہیں، جبکہ سردیوں کے دوران فل یونی فارم۔
نیوز ایجنسی اور دیگر اخباروں میں شائع خبروں میں استعمال کی گئی تصاویر سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اے این آئی کے ویڈیو میں دہلی پولیس کے جوانوں کو فل یونی فارم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’منا بھائی راجہ‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف نے اس سے قبل بھی فرضی خبر شیئر کی ہے۔
نتیجہ: ہاتھوں میں پتھر لئے جوان کی جس تصویر کو دہلی پولیس کی بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے، وہ جنوبی ہندوستان کی سالوں پرانی تصویر ہے۔
- Claim Review : आज इन्हीं की वजह से दिल्ली का माहौल खराब है
- Claimed By : FB User- Munna Bhai Raja
- Fact Check : جھوٹ
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔