فیکٹ چیک: کشمیر میں سی آر پی ایف جوانوں کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کا 2017 کا ویڈیو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل ویڈیو 2017 کا ہے جب سی آر پی ایف کے نوجوان انتخابات کے بعد ڈیوٹی کر کے واپس آرہے تھے۔ اس وقت بڈگام کے مقامی نوجوانوں نے اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ معاملہ پر کاروائی بھی کی جا چکی ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں بہت سے نوجوان سی آر پی ایف کے جوانوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ صارفین ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے دعوی کر رہے ہیں کہ کشمیر سے ہندوستانی فوج جا رہی ہے۔

وشواس نیوز نے جب ویڈیو کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ وائرل کیا جا رہا ویڈیو اپریل 2017 کا ہے، جب کشمیر کے بڈگام کے کچھ نوجوانوں نے سی آر پی ایف کے جوانوں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ ویڈیو میں نظر آرہے سی آر پی ایف جوان کشمیر چھوڑ کر نہیں جا رہے تھے بلکہ انتخابات کے بعد انتخابی حلقہ سے واپس لوٹ رہے تھے۔

کیا ہے وائرل پو سٹ میں؟

فیس بک پیج ’وادی کشمیر‘ کی جانب سے ایک ویڈیو شیئر کیا گیا جس کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے، ’’آخر کار مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج نکلتے ہوئے۔۔۔کشمیری کیسے سواگت کرتے ھیں لاتوں اور مکوں سے۔ماشااللہ ۔ اللہ پاک کشمیریوں کو آزادی کی بہاریں نصیب فرمائیں آمین‘‘۔

پوسٹ کا آرکائیو ورژن یہاں دیکھیں۔

پڑتال

کل 2 مینٹ اور 13 سیکنڈ کے اس ویڈیو میں کچھ سی آر پی ایف کے جوانوں کے ہاتھوں میں بیگس ہیں اور انہیں ایک گلی سے گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں بہت سے کشمیری مقامی لباس میں نظر آرہے نوجوان بھی ہیں جو مسلسل اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھیے جا سکتے ہیں۔

ویڈیو کی پڑتال کرنے کے لئے ہم نے سب سے پہلے ویڈیو کو ان ویڈ ٹول پر ڈال کر اس کے کی فریمس نکلے اور انہیں گوگل رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ کرنے پر ہمارے ہاتھ چینج ڈاٹ او آر جی کا ایک آرٹیکل لگا جس میں وائرل ویڈیو کے ایک منظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس آرٹیکل میں ہمیں دا ہندو کی ایک خبر کا لنک بھی ملا۔ خبر کی سرخی ہے
‘‘Youths beating jawans video: J&K DGP lauds CRPF men’s restraint’’
دا ہندو ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر 14 اپریل 2017 کو شائر ہوئی خبر میں بتایا گیا کہ، ’’9 اپریل کو سری نگر پارلیمانی حلقہ میں ضمنی انتخاب کے دوران کچھ نوجوانوں نے سی آر پی ایف کے جونوانوں کے ساتھ مار پیٹ کی، جو کہ ویڈیو میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مذکورہ معاملہ میں پولیس کی جانب سے ایف آئی آر بھی درج کی جا چکی ہے‘‘۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔

اب ہم نے گوگل پر ’یوتھ بیٹنگ سی آر پی ایف جوان‘ ٹائپ کر کے سرچ کیا۔ سرچ میں ہمارے ہاتھ نیوز 18 اردو کے یوٹیوب چینل پر شیئر کی گئی نیوز بولیٹن لگی۔ 17 اپریل 2017 کو اپ لوڈ کی گئی اس بیلیٹن میں اینکر کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’’9 اپریل کو کشمیر کے بڈگام میں انتخابات ختم کرانے کے بعد جب سی آر پی ایف کے نوجوان لوٹ رہے تھے تو وہاں موجود لڑکوں نے انہیں لاتیں ماری اور ان سی آر پی ایف جوانوں نے کچھ نہیں کہا‘‘۔ ویڈیو میں دکھائے گئے ایک منظر ہمیں ہو بہو وائرل ہو رہے ویڈیو سے ملتا جلتا نظر آیا۔ ویڈیو یہاں دیکھیں۔

مزید سرچ کرنے پر ہمارے ہاتھ ڈی این اے ا نڈیا ڈاٹ کام کی ایک خبر لگی۔ 15 اپریل 2017 کو شائع ہوئی خبر میں بتایا گیا کہ کشمیر کے بڈگام کا گزشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہو گیا ہے جس میں کچھ نوجوانوں کو سی آر پی ایف کے اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں میں بے حد غصہ ہے۔ خبر کے ساتھ ایک یوٹیوب یوڈیو بھی ہمیں لنکڈ ملا۔ یہ وہی ویڈیو تھا جسے اب غلط دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

مذکورہ موضوع پر مزید تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے دینک جاگرن کے جموں و کشمیر کے اسپیشل کارس پانڈینٹ نوین نواز سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ویڈیو شیئر کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ، ’’یہ ویڈیو 2017 کا بڈگام ہے جب انتخابات کے بعد سی آر پی ایف کے جوان انتخابی حلقہ سے لوٹ رہے تھے۔ اس وقت کچھ نواجوانوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ معاملہ پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی‘‘۔ ویڈیو کے ساتھ کئے جا رہے دعوی’’ ہندوستانی فوج کشمیر سے جا رہی ہے‘‘، کے بارے میں جب ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب فرضی باتیں ہیں‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک پیج ’وادی کشمیر‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج کو تقریبا دیڑھ ہزار صارفین فالوو کرتے ہیں۔ علاوہ ازں اس پیج سے کشمیر سے جڑی خبروں کو شیئر کیا جاتا ہے۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل ویڈیو 2017 کا ہے جب سی آر پی ایف کے نوجوان انتخابات کے بعد ڈیوٹی کر کے واپس آرہے تھے۔ اس وقت بڈگام کے مقامی نوجوانوں نے اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ معاملہ پر کاروائی بھی کی جا چکی ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts