نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو الہ آباد کا ہے اور سکھ نوجوان کو مارنے والا شخص اتر پردیش کے نائب وزیر اعلی کا بھتیجا ہے۔ وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ نہ ہی مارنے والا شخص کیشو موریہ کا بھتیجا ہے اور نہ ہی یہ ویڈیو یو پی کا ہے۔ وائرل ہو رہا ویڈیو 2016 کا جموں کا ہے۔
فیس بک صارف ارون گوتم بروا نے 18 اگست کو یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا، ’’الہ آباد میں نائب وزیر اعلی کیشو موریہ کے بھتیجے نے ٹرک ڈرائیور کی پگڑی اتار کر بے رحمی سے پیٹا سکھ مذہب کے ڈرائیور نے کہا جتنا مارنا ہے مار لو لیکن میرے بال نہ کھولو لیکن اقتدار کے نشے میں چور لیڈر نے بال پکڑ کر گھسیٹ گھسیٹ کر مارا‘‘۔
پڑتال کئے جانے تک اس ویڈیو کو 60 ہزار سے بھی زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ وہیں 2709 لوگوں نے شیئر کیا ہے۔
ویڈیو میں دکئے گئے کیپشن کے نیچے ارپت سری واستو نام کے صارف کا ٹویٹر لنک بھی دیا گیا ہے جس میں بھی یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو الہ آباد کا ہے اور مارنے والا شخص اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کا بھتیجا ہے۔
ہم نے پایا کہ یہ ویڈیو کو فیس بک اور ٹویٹر دونوں پلیٹ فارم پر اسی دعویٰ کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے ۔
وشواس ٹیم نے ویڈیو کی پڑتال کی اور سب سے پہلے ویڈیو کو غور سے دیکھا اور سنا۔ ویڈیو میں دو لوگ ایک لڑکے کو مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ لڑکے کے لمبے بال ہیں۔ بتا دیں کہ عام طور پر لمبے بال سکھ برادری کے لوگوں کے ہوتے ہیں۔ اب ہم نے ویڈیو کا پتہ لگانے کے لئے ان ویڈ ٹول کے ذریعہ اس کے کی فریمس نکالے اور ہمارے ہاتھ کچھ لنکس لگے۔ ان سبھی لنک میں ہمیں وائرل ویڈیو ملا، لیکن کوئی ایسا دعویٰ نہیں ملا جس سے یہ واضح ہو کہ یہ ویڈیو کس جگہ کا ہے۔
ہمارے سرچ میں ہمیں جیو بنداس نام کے یو ٹیوب اکاونٹ پر 22 مئی 2016 کو اپ لوڈ کیا ہوا ایک ویڈیو ملا۔ ویڈیو کو اس میں جموں کا بتایا گیا ہے۔
سرچ کے دوران ہمیں پنجاب کیسری کی خبر ملی جسے 14 مئی 2016 کا شائع کیا گیا تھا۔ خبر کی سرخی تھی، ’’سڑک کے بیچو بیچ نوجوان کی پٹائی‘‘۔ اس خبر میں وائرل ویڈیو کے ہی ایک شاٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ خبر پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جموں کے اکھنور میں ایک سکھ نوجوان کو دو لوگوں نے سرے عام مارا تھا۔
ہم نے اس خبر کا نیوز سرچ کیا اور ہمارے ہاتھ یو 4یو وائس ڈاٹ کام کی ایک خبر کا لنک لگا۔ یہ خبر سکھ نوجوان کی پٹائی کے بعد ہو رہی ہڑتال کے بارے میں تھی۔ خبر میں بتایا گیا کہ یہ پٹائی کا معاملہ 09 مئی 2016 کا ہے۔ جس میں ہروندر سنگھ نام کے سکھ نوجوان کو کچھ لڑکوں نے سڑک پر مارا تھا۔
انہیں لنک میں ہمیں ڈیلی سکھ اپ ڈیٹس نام کی ایک ویب سائٹ پر 14 مئی 2016 کا شائع ایک خبر ملی۔ خبر کے مطابق، سکھ نوجوان کا نام ہروندر سنگھ اور اسے وانی گپتا اور اس کے ساتھیوں نے مارا تھا۔ اکھنور پولیس نے دفعہ 341,323,295,307 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
اپنی خبر کی تصدیق کے لئے ہم نے جموں و کشمیر کے دینک جاگرن کے ریاستی ایڈیٹر ابھیمنیو شرما سے بات کی اور ان کے ساتھ وائرل ویڈیو شیئر کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ویڈیو 2016 کا ہے، اس سکھ نوجوان کی پٹائی کے بعد سکھ برادری کے لوگوں نے انصاف کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ معاملہ آپسی اختلافات کا تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے ہمارے ساتھ معاملہ کی ایف آئی آر کی کاپی بھی شیئر کی۔
درج کی گئی ایف آئی ایف کے مطابق 9 مئی 2016 کو اکھنور میں ہروندر سنگھ نام کے 19 سال کے ایک لڑکے کو وانی گپتا اور اس کے ساتھیوں نے سڑک پر مارا تھا۔ پولیس نے دفعہ 341,323,295,307 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
خبر کی مزید تصدیق کے لئے ہم نے الہ آباد کے دینک جاگرن ایڈیٹر مدن موہن سے بات کی اور انہوں نے ہمیں بتایا، ’’یہ ویڈیو پہلے بھی وائرل ہو چکا ہے۔ اس ویڈیو کا الہ آباد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں کیشو موریہ کا بھتیجا بھی نہیں ہے‘‘۔
اب باری تھی اس ویڈیو کو وائرل کرنے والے فیس بک صارف ارون گوتم بروا کی سوشل اسکینگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ ان کی کوور فوٹو پر بہوجن سماج پارٹی لکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اباوٹ سیکشن میں اپنے آپ کو بی ایس پی کا کارکن بتایا ہے۔
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں وائرل ویڈیو کا دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ ویڈیو میں نوجوان کو مارتے ہوئے نظر آرہا شخص اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو موریہ کا بھتیجا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ویڈیو الہ آباد کا ہے، بلکہ یہ ویڈیو 2016 کا جموں کے اکھنور کا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔