X
X

فیکٹ چیک: دہلی تشدد میں اجتماعی عصمت دری متاثرہ کے دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہی یہ تصویر مدھیہ پردیش کے ایک معاملہ سے منسلک ہے

دہلی تشدد کے دوران کونسلر طاہر حسین کے گھر پر لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر مدھیہ پردیش کے شاجاپور میں ہوئے معاملہ سے منسلک ہے، اس تصویر کا دہلی تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ دہلی میں تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر ایک لڑکی کی تصویر فرقہ وارانہ دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین کے گھر پر اجتماعی عصمت دری کے بعد لڑکی کا قتل کر اس کی لاش کو ٹھکانے لگا دیا گیا، جس کی شناخت ہو چکی ہے۔

وشواس نیوز کی جانچ میں یہ دعویٰ غلط اور فرقہ وارانہ نکلا۔ جس لڑکی کی تصویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے، وہ مدھیہ پردیش کے شاجاپور ضلع کے معاملہ سے منسلک ہے، جہاں 21 فروری کومشکوک حالت میں ایک طالبہ کی موت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف ’سندیپ چوہان‘ نے تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’طاہر حسین کے دہشت کی فیکٹری گھر سے جس لڑکی کے کپڑے برآمد ہوئے تھے وہ بدن پر ایک کپڑا بھی نہیں تھا اس کی نالے میں لاش ملی تھی اس کی شناخت ہو چکی ہے۔ 13 سال کی ہندو لڑکی کا آخر کپڑا طاہر حسین کے گھر سے ملا۔ طاہر حسین کے گھر سے، ہندوں اور ہندووں کے گھروں پر حملہ کے بعد، اس لڑکی کو امن پسندوں کے ذریعہ طاہر کے گھر کے اندر گھسیٹ کر لایا گیا۔ 40۔50 لوگوں نے کئی گھنٹے تک ایک کے بعد ایک عصمت دری کی اور مار کر لاش نالے میں پھینک دی ذرا ذرا سی خبر پر مودی کو کوسنے والے سیکولر اس خبر پر کسی کسی ماں جائے سگے بھائیوں جہادیوں نے کوئی مخالفت کی کیا؟؟؟ کسی بھی جہادی کے منہ سے اس بات پر کوئی بات سنی۔ ان کا مقصد تو صاف ہے۔ سارا کنفیوزن ہم میں ہی ہے، مفت خوروں؟؟؟؟‘‘۔

اس پوسٹ کو اب تک 236 صارفین شیئر کر چکے ہیں، علاوہ ازیں فیس بک پر دیگر صارفین بھی ملتے جلتے فرضی دعویٰ کے ساتھ اس تصویر کو شیئر کر رہے ہیں۔

پڑتال

وائرل تصویر کو رورس امیج کئے جانے پر ہمیں دینک بھاسکر میں 21 فروری 2020 کو شائع خبر کا لنک ملا، جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔

خبر کے مطابق، ’’مدھیہ پردیش کے شاجاپور کے گاؤں پرسولیاکلاں رہائشی 12ویں جماعت کی طالبہ جیوتی پاٹی دارو کی جمعرات کو مشکوک حالت میں موت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ معاملہ کو لے کر پولیس جہاں معاملہ خودکشی سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔ وہیں، دوسری جانب مہلک طالبہ کے بڑے پاپا وشنوپرساد پاٹی دار طالبہ کے خودکشی کرنے کی بات کو خارج کرتےہوئے معاملہ کی سنجیدگی سے جانچ کرنے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں موقع واردات کی حقیقت اور طالبہ سے متعلق کچھ حقائق بھی اس معاملے میں کچھ اور ہی اشارہ کررہے ہیں‘‘۔

دینک بھاسکر میں 21 فروری 2020 کو شائع ہوئی خبر

خبر میں تھانہ انچارج وویک کانوڈیا اور ایس ڈی پی او ناہر سنگھ راؤ کے موقع واردات پر پہنچ کر جانچ کئے جانے کا بھی ذکر ہے۔

وشواس نیوز نے معاملہ کی حیثیت سے متعلق دونوں افسران سے رابطہ کیا۔ سسنور کے تھانہ انچارج وویک کنوڈیا نے بتایا، ’’یہ پرسولیاکلاں کا معامعلہ ہے اور پولیس اس معاملہ کی جانچ کر رہی ہے۔ اس کا دہلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ معاملہ میں آئی پی کی دفعہ 306 کے تحت مقدمہ درج کر ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور وہ فی الحال عدالتی تحویل میں جیل میں ہے‘۔

مذکورہ معاملہ میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ہم نے ضلع آگر کے ایس ڈی پی اور ناہر سنگھ راوت سے بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کا دہلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ راوت نے بتایا کہ، ’’یہ مقامی معاملہ ہے اور جو شخص بھی اس معاملہ کو غلط دعویٰ کے ساتھ پھیلا رہا ہے ، اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائےگی‘‘۔

دہلی پولیس کے جوائنٹ کمیشنر آف پولیس آلوک کمار کے مطابق، ’26 فروری سے 2 مارچ کے بیچ دہلی کے چاند باغ، شیو وہار اور گوکلپور نالے سے آٹھ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک لاش آئی بی کے کانسٹیبل انکت شرما کا بھی ہے۔ ان میں سے کوئی لاش خاتون کی نہیں ہے۔ برآمش کی گئی لاشیں میں مارے گئے لوگوں کا ہے یا نہیں، اس کی جانچ کی جا رہی ہے‘‘۔

رواں سال کی 2 مارچ کو دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، ’’دہلی تشدد کے بعد نالوں سے اب تک 8 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں۔ جاگرن کے رپورٹر شجاع الدین نے بتایا، ’اب تک نالوں سے آٹھ لاشیں ملیں ہیں، جن میں سے چار کی شناحت نہیں ہو پائی ہے‘‘۔

دینک جاگرن میں 2 مارچ 2020 کو شائع ہوئی خبر

دہلی میں ہوئے تشدد کے بعد عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے کراول نگر واقع گھر سے خواتین کے کپڑے برآمد ہونے کی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلی اور اس کے بعد افواہوں نے زور پکڑ لیا۔

شجاع الدین نے کہا، ’جس گھر کی بات ہو رہی ہے وہ چار منزلہ عمارت ہے اور اسی عمارت میں طاہر حسین کا خاندان بھی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں وہاں ر ایک کال سنٹر اور پرنٹنگ پریس بھی ہے، جس میں تقریبا 100 سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں، جس میں خواتین بھی شامل ہیں‘‘۔ انہوں نے بتایا، ’دہلی پولیس نے تشدد کے بعد کوئی عصمت دری کا معاملہ درج نہیں کیا ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’سندیپ چوہان‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف نے اس سے قبل بھی فرضی پوسٹ شیئر کی ہیں۔

نتیجہ: دہلی تشدد کے دوران کونسلر طاہر حسین کے گھر پر لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر مدھیہ پردیش کے شاجاپور میں ہوئے معاملہ سے منسلک ہے، اس تصویر کا دہلی تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

  • Claim Review : طاہر حسین کے گھر پر عصمت دری کی شکار ہوئی لڑکی کی ہوئی شناخت
  • Claimed By : FB User- संदीप चौहान
  • Fact Check : جھوٹ‎
جھوٹ‎
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later