وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ تصویر الجیریا کی نہیں بلکہ یونان کے ایویا کی ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک ایک بچی کوگاڑی میں آس پاس دور تک لگی ہوئے آگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین تصویر کو شیئر کرتےہوئے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ تصویر الجیریا کی ہے۔ وشواس نیوز نے جب اس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ تصویر الجیریا کی نہیں بلکہ یونان کے شہر ایویا کی ہے۔ اس تصویر کو فوٹوگرافر جورجس موٹافس نے کھنچا تھا اور انہوں نے بھی وشواس نیوز سے بات کرتے ہوئے وائرل کئے جا رہے دعوی کو مسترد کیا ہے۔
فیس بک پیج تعرف پر وائرل تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے الجیریا کی بتایا گیا ہے۔ پوسٹ کے آکائیوو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
وائرل تصویر کی حقیقت جاننے کے لئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج کے ِذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر ’وی دا ورلڈ میگزین‘ کی ویب سائٹ پر ایک خبر میں ملی۔ 10 اگست 2021 کو شائع ہوئی خبر کے مطابق یونان کے ایویا میں گزشتہ آٹھ روز سے آگ لگی ہوئی ہے۔ نو سو فائٹ فائٹرس مسلسل آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
یونان اور ایویا کے کی ورڈ کے ساتھ سرچ کئے جانے پر ہمیں جورجیس موٹافس نام کے فیس بک صارف کے پیج پر وائرل تصویر ملی۔ تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے یونان ایویا 8اگست 2021 جورجس موٹافس لکھا ہوا ہے۔ جورجس کی پروفائل پر ہمیں ان کی ویب سائٹ کا بھی لنک ملا۔ جس میں دی گئی معلومات کے مطابق وہ ایتھنس کے ایک فوٹوگرافر ہیں۔
وائرل پوسٹ سے متعلق تصدیق کے لئے وشواس نیوز نے تصویر کو کھینچنے والے فوٹوگرافر جورجس موٹافس سے رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تصویر انہوں نے یونان کے ایویا میں 8اگست 2021 کو کھینچی تھی۔
اب باری تھی پوسٹ کو گمراہ کن دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک پیج تعرف کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج 74 لاکھ سے زیادہ لوگ فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ تصویر الجیریا کی نہیں بلکہ یونان کے ایویا کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں