X
X

فیکٹ چیک: دہلی کے چاندنی چوک میں ای وی ایم چوری کا دعویٰ غلط، الیکشن افسر کے پاس رکھے تھے ریزروڈ ای وی ایمس

دہلی کے چاندنی چوک کے بلی ماران میں پولیس کی ملی بھگت سے بی جے پی کارکنان کے ای وی ایم کو چرائے جانے کا دعویٰ غلط ہے۔ اس دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہے ویڈیو میں نظر آرہے شخص الیکشن افسر ہیں، جن کے پاس ہدایات کے مطابق ان یوزڈ ریزرو ای وی ایم کھی ہوئی تھی۔

  • By: Abhishek Parashar
  • Published: Feb 10, 2020 at 06:24 PM
  • Updated: Aug 29, 2020 at 04:23 PM

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ دہلی اسمبلی انتخابات مکمل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاندنی چوک سے بی جے پی کے کارکنان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشن (ای وی ایم) چراتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعویٰ غلط نکلا۔ جن مشینوں کو لے کر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہ الیکشن افسر کے پاس رکھی ریزروڈ ای وی ایم تھیں۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک صارف ’عام آدمی پارٹی‘ ماونٹ آبو ‘ نے وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’’چاندنی چوک سے ای وی ایم مشین بی جے پی والے غائب کرتے پکڑے گئے یہ انتخابی کمیشن بھی ملا ہوا ہے مودی حکومت کے ساتھ‘‘۔

متعدد دیگر صارفین نے ویڈیو کو ملتے جلتے دعویٰ کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ جانچ کئے جانے تک اس ویڈیو کو 389 صارفین شیئر کر چکے ہیں۔

پڑتال

ویڈیو میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ چاندنی چوک کے بلی ماران علاقہ میں بی جے پی کے لوگ پولیس کے ساتھ مل کر ای وی ایم کی چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔

چاندنی چوک، سنٹرل دہلی کے تحت آنے والا علاقہ ہے۔ اس سیٹ کے لئے الیکشن کمیشن نے لال منی کو الیکٹورل رجسٹریشن افسر (ای آر او) مقرر کیا ہے۔

وشواس نیوز نے لال منی سے پوچھا کہ کیا انہیں وائرل ہو رہے ویڈیو کے بارے میں معلومات ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہاں، مجھے معلوم ہے‘‘۔ افسر نے مزید بتایا، ’’ای وی ایم کو چرائے جانے کا دعویٰ بالکل غلط اور افواہ ہے۔ جن ای وی ایم کو لوگو ںنے دیکھ کر ہنگامہ کرنا شروع کیا، وہ الیکشن افسر کے پاس رکھی گئی اضافی ای وی ایم تھیں، جس سے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی‘‘۔

انہوں نے کہا، ’’سیکٹر افسر رام پرتاپ یادو کے پاس ان پولڈ ریزرو ای وی ایم تھے، جسے دیکھ کر لوگوں نے ہنگامہ کرنا شروع کر دیا‘‘۔

انتخابی کمیشن وقت وقت پر انتخابات کے بعد ای وی ایم کی حفاظت اور اس کے ساتھ دکھ ریکھ کو لے کر ہدایات جاری کرتے رہتا ہے۔ 22 مارچ 2019 کو جاری کئے گئے ہدایات کے مطابق، کیٹگری ڈی کے تحت ان یوزڈ ای وی ایم اور وی وی پیٹس مشینیں سیکٹر، زونل یا ایریا مجسٹریٹ کو دی جاتی ہیں۔ ان مشینوں کا استعمال ووٹنگ میں نہیں ہوتا ہے۔

مندرجہ ذیل کئے گئے ہدایات میں اسے واضح طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ الیکشن کمیشن کے ہدایات کے مطابق، ’انتخابات کے بعد تمام مہیا ای وی ایم اور وی وی پیٹس کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے‘‘۔

کیٹگری اے: پولڈ ای وی ایمس اور وی وی پیٹس

پہلی قسم میں وہ ای وی ایم اور وی وی پیٹ شامل ہوتے ہیں، جس میں ووٹنگ ہوئی ہوتی ہے اور جنہیں ووٹنگ ختم ہونے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے۔

کیٹگری بی: فیکسٹیو پولڈ ای وی ایمس اور وی وی پیٹس

اس میں ویسی ای وی ایم شامل ہوتی ہیں، جو کچھ ووٹوں کے ڈالے جانے کے بعد خراب ہو جاتی ہیں۔

کیٹگری سی: ڈیفکٹیو ان پولڈ ای وی ایمس اور وی وی پیٹس

اس قسم میں ان مشینوں کو رکھا جاتا ہے، جو انتخابات کے قبل ہی خراب ہو جاتی ہیں اور جنہیں بدل دیا جاتا ہے۔

کیٹگری ڈی: ان یوزڈ ای وی ایم اور وی وی پیٹس

اس قسم میں آنے والی ای وی ایم اور وی وی پیٹس مشینیں سیکٹر یا زونل یا ایریا مجسٹریٹ کے پاس ہوتی ہیں، جو محفوظ ہوتی ہیں اور جس کا استعمال ووٹنگ میں نہیں ہوتا ہے۔ بابرپور علاقہ میں جس ای وی ایم کو لوگوں نے چوری کے شبہ میں پکڑا ، وہ کیٹگری ڈی کی ای وی ایم مشینیں تھیں۔

اب باری تھی اس ویڈیو کو فرضی حوالے کے ساتھ فیس بک پر شیئر کرنے والے پیج ’عام آدمی پارٹی‘ ماونٹ آبو‘ کی سوشل اسکیننگ کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج کی جانب سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت میں پوسٹ شیئر کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس پیج کو14,466 صارفین فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: دہلی کے چاندنی چوک کے بلی ماران میں پولیس کی ملی بھگت سے بی جے پی کارکنان کے ای وی ایم کو چرائے جانے کا دعویٰ غلط ہے۔ اس دعویٰ کے ساتھ وائرل ہو رہے ویڈیو میں نظر آرہے شخص الیکشن افسر ہیں، جن کے پاس ہدایات کے مطابق ان یوزڈ ریزرو ای وی ایم کھی ہوئی تھی۔

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later