X
X

فیکٹ چیک: دہلی یونیورسٹی میں ہوئے طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کی تصویر کیا جا رہا گمراہ کن دعوی کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ پوسٹ گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر2017 کی دہلی یونیورسٹی کی ہے جب دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

  • By: Umam Noor
  • Published: Oct 9, 2021 at 02:35 PM

نئی دہلی(وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں کچھ خواتین کو پولیس کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر کو ہندوستانی مسلمانوں کے زوایہ کے ساتھ صارفین کے ذریعہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ جب وشواس نیوز نے اس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ پوسٹ گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر2017 کی دہلی یونیورسٹی کی ہے جب دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف نے وائرل تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کے لیے ہمدردی کیوں نہیں ہے؟ !!! کیا فلسطین میں صرف مسلمان ہیں؟‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے وائرل تصویرکو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر گیٹی ایمیجز کی ویب سائٹ پر ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، ’نئی دہلی میں 22 فروری 2017 کو اے بی وی پی، اے آئی ایس اے اور دہلی یونیورسٹی کے رامجس کالج کے دیگر طلباء کے درمیان تصادم ہوا۔ (تصویر گیٹ امیجز کے ذریعے راج کے راج/ہندوستان ٹائمز) نے کھینچی ہے۔

تصویر سے متعلق گیٹی امیجز سےحاصل ہوئی معلومات کی بنیاد پر ہم نے پڑتال کو آگے بڑھایا اور دہلی یونیورسٹی کالج کلاش سے ٹائم ٹول کے ذریعہ خبروں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ سرچ میں ہمیں ہندوستان ٹائمس کی 22 فروری 2017 کی ایک خبر ملی۔ یہاں دی گئی معلومات کے مطابق، ’جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء عمر خالد اور شہلا راشد کو سیمینار کی دعوت منسوخ کرنے پر بدھ کو دہلی یونیورسٹی کے رامجاس کالج میں اے بی وی پی اور اے آئی ایس اے کے ارکان کے درمیان جھڑپیں ہوئیں‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں

وائرل تصویر کو ہندوستان ٹائمس کے لئے فوٹوگرافر راج کے راج نے کھینچا تھا اور انہیں سے ہم نے اس فوٹو کی تصدیق کے لئے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمارے ساتھ گیٹی امیجزکی ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ تصویر سے متعلق تمام درست معلومات یہاں پر موجود ہے۔

اب باری تھی فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ صارف مارم حسن کا تعلق قائرہ سے ہے۔ علاوہ ازیں صارف فیس بک پر کافی سرگرم رہتا ہے۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ پوسٹ گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر2017 کی دہلی یونیورسٹی کی ہے جب دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

  • Claim Review : مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کے لیے ہمدردی کیوں نہیں ہے؟ !!! کیا فلسطین میں صرف مسلمان ہیں
  • Claimed By : Marim Hassan
  • Fact Check : گمراہ کن
گمراہ کن
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later