وشواس نیوز کی تفتیش میں پتہ چلا کہ یہ دعوی فرضی ہے۔ یہ ویڈیو مغربی بنگال کا نہیں، بنگہ دیش کا ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو می کچھ لوگوں کو آرمی کی گاڑیوں کے قافلے کو زبردستی روکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پوسٹ کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ مغربی بنگال کا ہے۔ وشواس نیوز کی تفتیش میں پتہ چلا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ یہ ویڈیو مغربی بنگال کا نہیں بلکہ بنگلہ دیش کا ہے۔
وائرل ویڈیو میں کچھ لوگوں کو آرمی کی گاڑیوں کے قافلے کو زبردستی روکتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ پوسٹ کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ، ’مغربی بنگال میں مسلمانوں کی غنڈہ گردی دیکھیئے حکومت، پولیس، فوج سب کو ان سے جان بچانی مشکل ہے۔ کیا یہ منظر آپ اپنے شہر یا گلی میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
اس پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
اپنی پڑتال شروع کرنے کے لئے ہم نے اس ویڈیو کو ان ویڈ ٹول میں ڈالا او اس ویڈیو کے کی فریمس نکالے۔ پھر ان کی فریمس کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ ہمیں ایچ ایم اے ایل امین نام کے ایک فیس بک پیج پر یہ ویڈیو ملا جس ایک فیس بک لائیو کی ریکارڈنگ تھی۔ 27مارچ 2021 کو اپ لوڈ ہوئے اس ویڈیو کے ساتھ بنگالی زبان میں لکھا تھا، ’اردو ترجمہ: ’’ہتجاری روڈ پر فوج‘‘۔ سرچ میں ہم نے پایا کہ ہتجاری روڈ بنگلہ دیش کے چٹگاؤں میں ہے۔ ایچ ایم اے ایل امین نام کے اس پیج کو بنگلہ دیش سے ہی چلایا جاتا ہے۔ یہ ویڈیو وائرل کلپ کا ہی بڑا ورژن تھا۔ پورے ویڈیو کو دیکھنے پر ایک جگہ آرمی کا گاڑی کی نمبر پلیٹ نظر آتی ہے۔ یہ نمبر پلیٹ بنگلہ میں تھی۔ اس میں دکھ رہا نمبر ہندوستانی گاڑی نمبر نہیں تھا۔
ہمیں یہ ویڈیو ایک اور بنگلہ دیشی فیس بک پیج ’دی بنگلہ دیش ڈفینس انالسٹ‘ پر بھی ملا۔ 29مارچ 2021کو اپ لوڈ ہوا اس ویڈیو کے ساتھ لکھا تھا
“Islamic extremists in Bangladesh blocked a road but could not stop a Bangladesh Army ambulance. Their response was confused and nervous as they never faced the Army before. #DEFSECA #BangladeshArmy #TerrorAlert”
اس پوسٹ کے مطابق بھی یہ ویڈیو بنگلہ دیش کا ہے۔
ہم نے انٹرنیٹ پر ’ہتھازری روڈ احتجاج‘ کی ورڈ کے ساتھ تلاش کیا تو ہمیں ہتزاری مدرسہ طالب علم کے ذریعہ مظاہرہ کی خبر دا ڈیلی اسٹار ڈاٹ نیٹ پر بھی ملی۔
اس موضوع میں مزید تصدیق کے لئے ہم نے بنگلہ دیشی نیوز ویب سائٹ جاگو نیوز کے نیوز رپورٹر شراج المان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’یہ وڈیو بنگلہ دیش کے چٹگاؤں کے ہتزاری کا ہے۔ وہاں کے مدرسے کے طلبہ پولیس کے ساتھ ہوئی جھڑپ کی مخالفت کر رہے تھے جس میں ایک فوج کی ایمبولینس وہاں سے گزری۔ پہلے تو طلبہ نے راستہ روکا لیکن بعد میں اسے جانے دیا گیا تھا۔ ویڈیو تبھی کا ہے‘‘۔
وائرل تصویر کو شیئر کرنے والے صارف ’اتم کڈیل سونی‘ کی سوشل اسکیننگ سے تپہ چلا کہ صارف راجستھان کا رہنے والا ہے۔ وہیں صارف کے فیس بک پر 3212 فرینڈس ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز کی تفتیش میں پتہ چلا کہ یہ دعوی فرضی ہے۔ یہ ویڈیو مغربی بنگال کا نہیں، بنگہ دیش کا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں