نئی دہلی (وشواس ٹیم) سوشل میڈیا پر تین تصاویر کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ آسام کے کانگریس لیڈر امجات علی کو سیب کی ٹوکری میں ہتھیار اور گولیوں کے ساتھ مسجد سے حراست میں لیا گیا ہے۔ وشواس ٹیم کی تفتیش میں یہ پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے ان وائرل تصویروں کو شیئر کیا ہے۔ ایک ایسے ہی فیس بک صارف ہیں پشپیندر تیاگی۔ انہوں نے اس پوسٹ کو 16 مارچ کو دوپہر میں اپ لوڈ کیا۔ یہ تصاویر پہلے بھی کئی بار وائرل ہو چکی ہیں۔ تصویر کے اوپر لکھا ہے: ’آسام کے کانگریس کے لیڈر امجات علی سیب کی ٹوکری میں ہتھیار اور گولیوں کے ساتھ مسجد سے حراست میں لئے گئے۔ ہندوؤں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ پولیس نے گرفتار کیا‘۔
وائرل تصاویر کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے تینوں تصاویر کو الگ- الگ کر کے گوگل ریورس امیج میں تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی تصویر(سیب اور ہتھیار والی) کو جب ہم نے گوگل ریورس امیج میں تلاش کیا تو ہمیں گریٹ کشمیر ڈاٹ کام (انگریزی میں نیچے پڑھیں) کا لنک ملا۔ 29 اکتوبر 2018 کو اس ویب سائٹ پر پہلی والی تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔ کیپشن میں لکھا ہے کہ سری نگر کے باہری علاقوں میں بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ کشمیر پولیس کے حوالے سے لکھی گئی اس خبر میں کہا گیا ہے کہ تین مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا یعنی یہ واضح ہوگیا کہ پہلی تصویر کا آسام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تقریباً پانچ ماہ پرانی کشمیر کی تصویر ہے۔
greatkashmir.com
اب باری تھی دوسری تصویر(پولیس کے شکنجے میں شخص) کی حقیقت جاننے کی۔ گوگل ریورس امیج میں جب ہم نے یہ تصویر تلاش کی تو ہمیں بنگالی زبان میں لکھا ہوا ایک بلاگ کا لنک ملا۔
اس لنک کے کنٹینٹ کو ترجمہ کرنے کے لئے ہم نے گوگل ٹرانسلیٹ کا استعمال کیا۔ اس سے ہمیں پتہ چلا کہ مبارک حسین نام کے ایک استاد کو عصمت دری کے الزام میں گزشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا۔
تیسری تصویر کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے ایک بار پھر گوگل ریورس امیج کا سہارا لیا۔ گوگل سرچ کے کئی صفحات کو اسکین کرنے کے بعد آخر کار ہمیں اشارہ مل ہی گیا۔ بنگلہ دیش کی ویب سائٹ ڈیلی جونوموٹ ڈاٹ کام (انگریزی میں نیچے پڑھیں) کا ہمیں ایک لنک ملا۔ اس خبر میں اسی تیسری تصویر کا استعمال کیا گیا تھا، جس کو آسام کے لیڈر کے نام پر وائرل کیا جارہا ہے۔ بنگالی زبان میں لکھی گئی اس خبر کو ہم نے گوگل ٹرانسلیٹ کے ذریعہ انگریزی میں ترجمہ کیا، حقیقت ایک بار پھر ہمارے سامنے تھی۔ خبر کی سرخی ہے
Mymensingh schoolgirl’s suicide sexual assault case
dailyjonomot.com
اس کے بعد ہم نے اب تک ملے کی ورڈ کے ذریعہ کچھ باتیں جاننے کا فیصلہ کیا۔ گوگل سرچ میں ہم نے کی ورڈ ٹائپ کرکے جب سرچ کیا تو پہلا ہی لنک ہمیں بنگلہ دیش کی ویب سائٹ دی ڈیلی اسٹار ڈاٹ نیٹ کا مل گیا۔ خبر کی سرخی تھی ۔
‘Punish madrasa teacher’
خبر کے مطابق، 13 سالہ طالبہ کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے مدرسہ کے استاد کو سزا دلانے کے لئے لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ ٹیچر کا نام مبارک حسین تھا۔ گاؤں کے ہی لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ یہ واقعہ مئی 2018 کا ہے۔
اب باری تھی تصویر میں دکھائی دے رہے پولیس اہلکاروں کے اسکینگ کی۔ احتیاط سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ تصویر میں پولیس اہلکاروں نے جو وردی پہنی ہوئی ہے، وہ ہندوستان میں نہیں پہنی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم نے گوگل کی مدد سے بنگلہ دیش کی پولیس کی وردی کو دیکھنے کا ارادہ کیا۔ ہماری اسکیننگ میں پتہ چلا کہ وائرل تصویر میں پولیس اہلکاروں نے جو یونی فارم پہن رکھی ہے وہ ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے پولیس کی آفیشیل یونی فارم ہے۔
بالآخر ہم نے فرضی پوسٹ پھیلانے والے صارف کی اسٹاک اسکین ٹول کے ذریعہ سوشل اسکیننگ کی۔ جس کے نتیجہ میں ہمیں پتہ چلا کہ جولائی 2015 میں بنائے گئے پشپیندر تیاگی سی ایف آئی ایف کے اکاؤنٹ سے فرضی پوسٹ کی گئی ہے۔ فرید آباد کے رہنے والے پشپیندر تیاگی کرائم فری انڈیا فورسز نامی ایک تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی زیادہ تر پوسٹ ایک خاص نظریہ پر مبنی ہوتی ہیں۔
اختتامیہ: ہماری جانچ میں پتہ چلا کہ جس تصویر کو آسام کے لیڈر کی بتا کر وائرل کی جا رہی ہے، دراصل وہ بنگلہ دیش کے ایک مدرسہ کے استاد کی ہے۔ اس نے ایک طالبہ کا جنسی استحصال کیا تھا۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 –) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔