فیکٹ چیک: یاسین ملک کی رہائی کے احتجاج کے نام پر وائرل کی جا رہی تصویر، 2018 کی واشنگٹن ڈی سی کی ہے

جب ہم نے اس تصویر کی پڑتال کی تو پایا کہ اس تصویر کا یاسین ملک یا سری نگر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فوٹو سال 2018 میں واشنگٹن ڈی سی کی میں ہوئے ایک احتجاج کی ہے۔ اب اسی تصویر کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں ہزاروں لوگوں کی بھیڑ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر کو شیئر کرتے ہوئے صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ فوٹو ’سری نگر میں یاسین ملک کی رہائی کے لیے احتجاج‘ کی ہے۔ جب ہم نے اس تصویر کی پڑتال کی تو پایا کہ اس تصویر کا یاسین ملک یا سری نگر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فوٹو سال 2018 میں واشنگٹن ڈی سی کی میں ہوئے ایک احتجاج کی ہے۔ اب اسی تصویر کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’سری نگر میں یاسین ملک کی رہائی کے لیے احتجاج‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے تصویر کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ فوٹو گلیمر ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر 25مارچ 2018 کو شائع ہوئے آرٹیکل میں ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، ’ہفتے کے روز ، لاکھوں لوگ واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہوئے تاکہ بندوق کنٹرول کے قوانین کی حمایت میں مارچ کریں اور مارچ فار آور لائیوز میں بندوق کے تشدد اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کو ختم کریں۔ مارچ کی منصوبہ بندی گزشتہ ماہ مارجوری اسٹون مین ڈگلس ہائی اسکول میں ہونے والی فائرنگ کے جواب کے طور پر کی گئی تھی‘۔ مکلمل خبر یہاں پڑھیں۔

اسی تصویر کا کلوزپ ویو ہمیں کارجیئن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی خبر میں بھی ملی۔ 25 مارچ 2018 کی خبر کے مطابق یہ فوٹو واشنگٹنگ ڈی سی میں ہوئے احتجاج کی ہے۔

مزید سرچ میں ہمیں یہ تصویر گیٹی امیجز کی ویب سائٹ پر بھی اپلوڈ ہوئی ملی۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق 24 مارچ 2018 کو واشنگٹ ڈی سی ’آر لائوس‘ مارچ ہوا جس میں ہزاروں لوگوں اور سلبریٹیز نے بھی شرکت کی۔

تصویر کو سری نگر کے احتجاج کے حوالے سے وائرل کیا جا ہاہے تو اس سے متعلق تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے دینک جانگرن کے سینئر صحافی نوین نواز سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ یاسین ملک کی گرفتاری کے بعد اس کے گھر کے پاس 50-60 لوگوں نے احتجاج کیا تھا اور وہ بھی پندرہ سے بیس مینٹ کی چلا تھا۔ ہزاروں کی بھیڑ کا ایسا کوئی احتجاج یاسین ملک کے لئےنہیں ہوا ہے۔

فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف نضابت وسیم کی سوشل اسیننگ میں میں ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق پاکستان کے آزاد کشمیر سے ہے۔

نتیجہ: جب ہم نے اس تصویر کی پڑتال کی تو پایا کہ اس تصویر کا یاسین ملک یا سری نگر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فوٹو سال 2018 میں واشنگٹن ڈی سی کی میں ہوئے ایک احتجاج کی ہے۔ اب اسی تصویر کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts