وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ گمراہ کن ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کا حجاب پر یہ فیصلہ 2018 میں آیا تھا، اس فیصلہ کا حالیہ کرناٹک حجاب متنازعہ یا کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب پر حالیہ آئے فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔حال میں حجاب متنازعہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کے آئے فیصلہ کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہو رہی ہے اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے کرناٹک ہائی کے فیصلہ کے بعد ایک فیدصلہ سنایا ہے جس میں طالبات کو کالج میں حجاب پہننے کی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ میں حجاب پہن کر کالج جانے والی طالبہ پر انتظامیہ کوئی قدم بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ گمراہ کن ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کا حجاب پر یہ فیصلہ 2018 میں آیا تھا، اس فیصلہ کا حالیہ کرناٹک حجاب متنازعہ یا کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب پر حالیہ آئے فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’ممبئی، ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مسلم طالبہ حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوتی ہے تو کالج انتظامیہ کو ان طالبات کو روکنے کا کوئی حق نہیں ہے، کرناٹک ہائی کورٹ پر طمانچہ ہے، یہ قانون وہی ہے، جناب، لیکن کام سیاست کے مفاد میں کیا جا رہا ہے‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
رواں ماہ کی 15 مارچ کی خبر کے مطابق، ’ کرناٹک ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات پر حجاب کی پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا ہے۔ سنوائی کے وقت عدالت نے کہا کہ حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل نہیں ہے۔ اس بنچ میں شامل ایک اور جج جسٹس کرشنا ایس دیکشت کا کہنا تھا، ’’ہماری رائے یہ ہے کہ اسکول کی جانب سے یونیفارم متعین کرنا ایک معقول پابندی ہے جو آئینی طور پر جائز ہے اور اس پر طلبہ کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے‘‘۔ لائیو لا کی مکمل خبر کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب معاملہ پر آئے فیصلہ کے بعد ممبئی ہائی ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ سنایا ہے۔ سرچ میں حالیہ سنایا ہوا ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہے۔
مزید سرچ کئے جانے پر ہمیں نیوز 18کی ویب سائٹ پر 15 مارچ 2018 کی ایک خبر لگی۔ خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق، ’بمبئی ہائی کورٹ نے ایک مسلم طالبہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے تھانے کے ایک ہومیوپیتھی کالج میں لیکچرز میں شرکت کے دوران مسلم خواتین کا روایتی لباس حجاب پہننے کی اجازت دی ہے۔ طالبہ نے ایک رٹ پٹیشن کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا تھا، جس میں کالج اور یونیورسٹی کو ہدایت کی درخواست کی گئی تھی کہ یا تو اسے حجاب پہن کر کالج جانے کی اجازت دی جائے یا اسے کسی دوسرے کالج میں منتقل کیا جائے جہاں وہ بغیر کسی پابندی کے اپنے مذہبی عقائد پر عمل کر سکے۔ عدالت نے کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم کو اسکارف اور گاؤن پہننے کی اجازت دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کالج کی منتقلی کی ضرورت نہیں ہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
اسی معاملہ سے متعلق خبر ہمیں انڈین ایکسپریس کی ویب سائٹ پر بھی 26 مئی 2018 کو شائع ہوئی آرٹیک میں ملی۔ یہاں دی گئی تفصیلی معلمومات کے مطابق، ’ہومیوپیتھی کی ایک طالبہ فکیحہ بادامی نے نومبر 2017 میں سب سے پہلے بمبئی ہائی کورٹ میں یہ الزام لگایا تھا کہ کالج نے اسے حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی اور کم حاضری کی بنیاد پر اسے امتحانات میں بیٹھنے سے روک دیا گیا تھا‘۔
حجاب معاملہ سے جڑی مزید معلومات حاصل کرتے ہوئے ہم نے لائو لا کے صحافی مصطفی پلمبر سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ کرناکٹ ہائی کورٹ کے حجاب معاملہ پر آئے فیصلہ کے بعد ممبئی ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ بغیر درخواست دئے کسی دوسری ریاست کی عدالت اس طرح سے فیصلہ نہیں سنا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کرناکٹ حجاب معاملہ اب سپریم کورٹ میں لے جایا جا رہا ہے۔
گمراہ کن پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نےپایا کہ صارف کا تعلق بنگلور سے ہے۔
اس فیکٹ چیک آرٹیکل کو ہندی میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ آٹیکل یہاں پڑھیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ گمراہ کن ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کا حجاب پر یہ فیصلہ 2018 میں آیا تھا، اس فیصلہ کا حالیہ کرناٹک حجاب متنازعہ یا کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب پر حالیہ آئے فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں