وشواس نیوز نے پسٹ کی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ برقع پہنے اس شخص کی تصویر کا پاکستان کے سیالکوٹ سانحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصویر 2015 کی سری نگر کی ہے۔
نئی دہلی(وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر ہو رہی ہے جس میں ایک شخص کو برقع پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین اس تصویر کو سانحہ سیالکوٹ ملزمی کی سمجھتے ہوئے شیئر کر رہے ہیں اور یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ملزم عمران رضوی برقع پہن کر فرار ہو رہا تھا تبھی پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ وشواس نیوز نے پسٹ کی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ برقع پہنے اس شخص کی تصویر کا پاکستان کے سیالکوٹ سانحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصویر 2015 کی سری نگر کی ہے۔
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’سانحہ سیالکوٹ کا ملزم عمران رضوی بہن کے گھر سے برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے گرفتار۔ ارے بھائی عاشقی کہاں گئ‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعہ وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر 16 اکتوبر 2015 کو شائع ہوئی ایک خبر میں ملی۔ یہاں خبر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق جموں و کشمیر کے پلوامہ میں برقع پہنے ایک بندوق بردار نے لوگوں پر فائرنگ کر دی جس میں دو افراد زخمی ہو گئے۔ وہیں خبر میں مزید بتایا گیا کہ پولیس نے برقع بردار شخص کو گرفتار کر لیا۔ مکمل خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
نیوز سرچ میں ہمیں یہ تصویر گریٹر کشمیر ڈاٹ کام اور جے کے رپورٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ اکتوبر 2015 میں شائع ہوئے آرٹیکل پر بھی ملی۔ یہاں بھی تصویر کو پلوامہ کی خبر کے ساتھ اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ خبر کو یہاں اور یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
قابل غور ہے کہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے کا معاملہ حال ہی میں پیش آیا تھا۔ معاملہ سے متعلق جیو ٹی وی کی ویب سائٹ پر 17 دسمبر 2021 کی اپڈیٹڈ خبر کے مطابق، ’سیالکوٹ سانحہ میں 120 پولیس کی حراست میں ہیں اور 52 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔
پوسٹ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہم نے پاکستان کے نیوز 92 کے سینئر صحافی عارف محمود سے رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ خبروں کے مطابق مذکورہ سیالکوٹ سانحہ میں ایک ملزم برقع پہن کر بھاگ رہا تھا جسے پلویس نے حراست میں لیا تھا لیکن یہ تصویر اس کی نہیں ہے۔
فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف دور شاور زیشان کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارفی کا تعلق کراچی پاکستان سے ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے پسٹ کی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ برقع پہنے اس شخص کی تصویر کا پاکستان کے سیالکوٹ سانحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصویر 2015 کی سری نگر کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں