وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر 2013 کی مصر کی ہے، جب مصر میں ہوئے ایک احتجاج کے دوران اخوان المسلمین کے دفتر کو بھی آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک عمارت پر لگے بورڈ کو جلتے ہوئے دیکھا جا سکتاہے۔ وہیں بورڈ پر الا اخوان المسلمین لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس تصویر کے ساتھ صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ یہ تصویر تونس کی ہے جہاں اخوان المسلمین کے دفتر کو آگ کے حوالے کر دیاگیا ہے۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر 2013 کی مصر کی ہے، جب مصر میں ہوئے ایک احتجاج کے دوران اخوان المسلمین کے دفتر کو بھی آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
فیس بک صارف ’الصياد الملتحي‘ نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتےہوئے لکھا، ’تونس میں اخوان کے دفتر کو نذر آتش کیا گیا۔ #بھائیوں جب وہ 2011 میں مظاہرہ کر رہے تھے ، ان کے آنسو سکرینوں سے بھر گئے اور لوگوں سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق مانگا ، اور آج جب ان کی سچائی سامنے آئی اور ان کی برہنگی سامنے آئی اور آگ ان تک پہنچی تو وہ لوگ دہشت گرد گروہوں میں بدل گئے‘۔
پوسٹ کےآرکائیو ورژن کویہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے وائرل تصویر کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر گیٹی ایمجز پر ملی۔ یہاں پر دی گئی معلومات کے مطابق، 1 جولائی 2013 کی یہ تصویر قاہرہ مصر کے اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹر کی ہے جہاں چھت پر اخوان المسلمون کا لوگو جلتا دکھائی دے رہا ہے جب کہ مظاہرین یکم جولائی 2013 کو قاہرہ، مصر میں مضافات کے نواحی علاقے میں عمارت کو توڑ رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹر میں 30 جون کو دیر سے فائرنگ شروع ہوئی اور یکم جولائی کی صبح تک جاری رہی۔ فوٹو کریڈٹ میں ای ڈی گائلس کا نام لکھا ہوا نظر آیا۔
مزید سرچ کرتے ہوئے ہم نے معاملہ کا نیوز سرچ کیا اور ہمیں دا گارجنیئن کی ایک ویب سائٹ پر1 جولائی 2013 کو شائع ہوئی ایک خبر لگی۔ خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق، مصر کے اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹر کو رات بھر محاصرے کے بعد جلا دیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی-ایک دن بعد جب لاکھوں افراد نے مصر کی سڑکوں پر صدر محمد مرسی کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ آگ کے دوران اخوان کے ارکان زخمی ہوئے اور حکام کے حوالے کیے گئے۔ اخوان کے دیگر ارکان بھاگ گئے، مظاہرین نے کمپاؤنڈ پر دھاوا بول دیا اور آگ کو تیز کر دیا۔ فائر فائٹرز نے بتایا کہ وہ صبح 9 بجے پہنچے – عمارت کو بچانے میں بہت تاخیر ہوئی ، جو اب جل چکی ہے اور اب بھی دھوئیں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک بار بدترین آگ بجھانے کے بعد ، سینکڑوں لوگ دوبارہ عمارت میں داخل ہوئے ، لوٹ مار کی اور اس کی باقی خصوصیات کو تباہ کر دیا‘‘۔ مکمل خبر کو یہاں پڑھیں۔
پوسٹ سے جڑی تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے اس تصویرکو کھینچنے والے فوٹو گرافر ای ڈی گلس سے ٹویٹر کے ذریعہ رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تصویر انہوں نے 2013 میں مصر کے قائرہ میں کھینچی تھی جب ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران اخوان مسلمین کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔
مزید سرچ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تونس میں اخوان مسلمین کے دفتر کو آگ کے حوالے کئے جانے کاکوئی معاملہ پیش آیا ہے۔ 26جولائی 2021 کو ایجپٹ ٹوڈے کو شائع ہوئی خبر کے مطابق، ’تونس میں چل رہے مظاہروں میں مظاہرین نے اخوان المسلمون سے وابستہ النہدہ پارٹی کے کئی ہیڈ کوارٹرز اور دفاتر پر حملہ کیا اور اس میں سے زیادہ تر کو آگ کے حوالے کر دیا۔
اب باری تھی فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ صارف کو3,035 لوگ فالووکرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر 2013 کی مصر کی ہے، جب مصر میں ہوئے ایک احتجاج کے دوران اخوان المسلمین کے دفتر کو بھی آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں