وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ تصویر کے ساتھ کیا جا رہا دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر افغان خواتین کی 2012 کی ہے۔ علاوہ ازیں طالبان قبضہ کے بعد امیراتی فوجیوں کے براقع پہن کے بھاگنے جیسا کوئی معاملہ پیش نہیں آیا ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کابل پر ہوئے طالبان کے قبضہ کے بعد سے سوشل میڈیا پر مسلسل فرضی ویڈیو اور تصاویر کے وائرل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی ضمن میں وشواس نیوز نے پایا کہ ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں برقع پہنے خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ تصویر میں برقع پہنے یہ خواتین نہیں بلکہ امیراتی فوجی ہیں جو افغانستان پر طالبان قبضہ کے بعد بھاگ رہے تھے اور طالبانیوں نے انہیں حراست میں لے لیا۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ تصویر کے ساتھ کیا جا رہا دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر افغان خواتین کی 2012 کی ہے۔ علاوہ ازیں طالبان قبضہ کے بعد امیراتی فوجیوں کے براقع پہن کے بھاگنے جیسا کوئی معاملہ پیش نہیں آیا ہے۔
فیس بک صارف نے وائرل تصویر کو اپ لوڈ کیا جس میں متعدد برقع پہنے خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صارف نے کیپشن میں لکھا ہے، ’اماراتی فوجیوں کو افغان خواتین کا برقع پہن کر کابل ایئرپورٹ کی طرف فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعہ وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر انگلیز العربیہ کی ویب سائٹ پر 9 مئی 2015 کو شائع ہوئی ایک خبر میں ملی۔ افغان خواتین سے متعلق اس خبر میں اس تصویر کے فوٹو ٹریڈٹ میں اے ایف فائل فوٹو لکھا ہوا نظر آیا۔
مزید سرچ میں ہم نے اے ایف پی کی ویب سائٹ پر متعدد مختلف کی ورڈس ڈال کر تصویر کو سرچ کرنے پر وائرل تصویر ہمیں ملی۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق ’افغان خواتین 5 اگست 2012 کو جلال آباد شہر میں جماعت اصلاح سے خوراک کا عطیہ وصول کرنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اے ایف پی فوٹو/ نور اللہ شیرزادہ‘‘۔
اب تک کی تفتیش سے یہ تو واضح تھا کہ وائرل تصویر خواتین کی اور 2012 کی ہے۔ اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے یہ جاننےکی کوشش کی کہ کیا طالبان کے افغانستان پر ہوئے قبضہ کے بعد کیا امیراتی فوجیوں کا برقع پہن کے بھاگے جانےاور ان کے پکڑے جانے جیسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے۔ تمام سرچ کے بعد بھی ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی جو اس دعوی کو صحیح ثابت کر سکے۔
وائرل پوسٹ سے متعلق دعوی کی تصدیق کے لئے ہم نے اٹرنیشنل افیئرس صحافی، مشرق وسط معاملوں کے ماہر اور یونی ورسٹی آف وارسا کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل رلیشنس کے وزیٹنگ فیکلٹی سوربھ شاہی کے ساتھ رابطہ کیا۔ سوربھ نے ہمیں بتایا کہ دعوی غلط ہے۔ افغانستان میں امیراتی فوجی نہیں ہیں۔
اب باری تھی اس فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف ابراہیم کی سوشل اسکیننگ کرنےکی۔ ہم نے پایا کہ صارف کو 87 لوگ فالوو کرتے ہیں وہیں صارف فیس بک پر سرگرم رہتا ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ تصویر کے ساتھ کیا جا رہا دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر افغان خواتین کی 2012 کی ہے۔ علاوہ ازیں طالبان قبضہ کے بعد امیراتی فوجیوں کے براقع پہن کے بھاگنے جیسا کوئی معاملہ پیش نہیں آیا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں