مصنوعی ذہانت کے ذریعہ تیار کی گئی تصاویر، مذہبی عقیدے سے جوڑ کر اصل بتاتے ہوئے ہوتی رہیں ہیں وائرل

وشواس نیوز نے ایسی کئی مصنوعی ذہانت کے ذریعہ تیار کی گئی تصاویر کا فیکٹ چیک کیا ہے جنہیں اصل سمجھتے ہوئے صارفین وائرل کر چکے ہیں۔ ہماری رپورٹ نیچے پڑھی جا سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشئل انٹیلیجنس (اے آئی) کا استعمال دورہ حاضر میں زور شور سے ہو رہا ہے۔ حالاںکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین ایسی اے آئی تصاویر کو اصل سمجھتے ہوئے شیئر کرتے ہیں جو مذہب اسلام سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ تصاویر اصل تو نہیں ہوتی لیکن صارفین اپنے عقیدے سے جوڑ کر ان تصاویر کو اصل معاملہ سمجتھے ہوئے وقت- وقت پر وائرل کرتے رہتے ہیں۔

وشواس نیوز نے ایسی کئی مصنوعی ذہانت کے ذریعہ تیار کی گئی تصاویر کا فیکٹ چیک کیا ہے جنہیں اصل سمجھتے ہوئے صارفین وائرل کر چکے ہیں۔ ہماری رپورٹ نیچے پڑھی جا سکتی ہے۔

پہلی تصویر

سوشل میڈیا پر تین الگ-اہگ تصاویر کا کولاج وائرل ہوا جس میں بے حد بڑے نظر آرہے قارآن شریف کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تمام تصاویر میں قرآن شریف کو ایک گاڑی میں رکھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان فوٹوز کو اصل سمجھتے ہوئے صارفین نے اپنے عقیدہ کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا۔

حالاںکہ ہم نے یعنی وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ تصویر اصل نہیں ہیں۔ ان تینوں ہی تصاویر کو مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشئل انٹیلیجنس کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔

مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھیں۔

دوسری تصویر

 وہیں ایک دیگر اے آئی تصویر وائرل ہونی شروع ہوئی جس میں فصل پر اللہ لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ فصل کی اس فوٹو کو بھی اصل معاملہ سمجھتے ہوئے صارفین نے اسے اپنے-اپنے سوشل میڈیا ہینڈلز سے خوب شیئر کیا اور ساتھ ہی تصویر کو آگے فارورڈ کرنے کا بھی دیگر صارفین سے مطالبہ کیا۔

ہم نے اس تصویر کی پڑتال میں پایا ک کہ وائرل کی جا رہی یہ تصویر اصل نہیں ہے۔ یہ فوٹو مصنوعی ذہانت کے ذریعہ تیار کی گئی ہے۔ ہم نے اس فوٹو کو اے آئی تصاویر کی جانچنے والی ویب سائٹ ہائیو ماڈریشن پر اپلوڈ بھی کیا، نتائج میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس فوٹو کے اے آئی ہونے کے امکان 99.9 فیصد ہیں۔

مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھیں۔

تیسری تصویر

سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی تصویر وائرل ہوئی۔ تصویر میں خاتون کے ہاتھ میں قرآن شریف نظر آرہا ہے وہیں پاس میں رینج روور گاڑی ہے جو ہری سبز پتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ تصویر کو شیئر کرنے والے کئی سوشل میڈیا یوزرس کو یہ فوٹو اصل لگی۔

حالاںکہ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل تصویر اصل نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعہ تیار کی گئی تصاویر کی شناخت کرنے والے ٹول ہائیو ماڈریشن پر اس فوٹو کے 99.9 فیصد اے آئی سے بنے ہونے کے نتائج ملے۔

مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھیں۔

چوتھی تصویر

سوشل میڈیا کے الگ- الگ پلیٹفارم پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی۔ وائرل کی جا رہی پوسٹ میں تین تصاویر کا کولاج تھا جن میں پانی کے اندر پھنسے لوگوں کےہاتھ میں قرآن شریف نظر آرہا ہے۔ اس کولاج کو بھی اصل سمجھ کر اپنے عقیدہ سے جوڑ کر صارفین نے خوب وائرل کیا۔

حالاںکہ ہماری پڑتال میں یہ تینوں ہی تصاویر اے آئی کے ذریعہ تیار کردہ نکلی۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی تصویر اصل نہیں ہے۔

مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھیں۔

مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts