X
X

فیکٹ چیک: 2014 پشاور اسکول حملہ کی تصویرکو کیا جا رہا پاکستان طلبا مظاہرے سے جوڑ کر غلط حوالے کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر 2014 پشاور اسکول حملہ کی ہے، جسے اب فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

  • By: Umam Noor
  • Published: Feb 2, 2021 at 06:03 PM
  • Updated: Feb 2, 2021 at 06:56 PM

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آن لائن امتحان کے مطالبے کے تحت چل رہے مظاہرے میں لاٹھی چارج میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب (یو سی پی) کےایک طالب علم کی موت ہو گئی ہے۔

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر سال 2014 کے پشاور اسکول حملہ کی ہے۔ جسے اب فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کی صحافی لبنی جرار نقوی نے بتایا کہ ان مظاہروں میں متعدد طلبا زخمی ضرور ہوئے ہیں لیکن کسی کی موت نہیں ہوئی ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

ٹوٹر صارف نے 27 جنوری 2021 کو ایک تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا
#YouthPowerStudentPower A student of UCP passed away due to Lathi Charge of Security Gaurds outside UCP today.What did he do wrong?Just demanded what was rightful?These goons are http://criminals.Security Gaurds which are meant to protect them are killing them. #JusticeForStudents’’

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے سب سے پہلے تصویرکو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمارے ہاتھ 17 دسمبر 2014 کو این وائی پوسٹ میں شائع ہوا ایک آریکل ملا، جس میں ہمیں وائرل تصویر نظر آئی۔ خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق منگل کے روز پاکستانی شہر پشاور میں طالبان کے مسلح افراد نے ایک اسکول میں حملہ کیا، جس میں 141 افراد ہلاک ہوگئے۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پر ہمیں تصویر کا اصل ماخذ ملا، اے ایف پی کے لئے 16 مئی 2014 کو ایم مجید نام کے فوٹوگرافر نے تصویر کو کھینچا تھا۔ تصویر کے ساتھ دی گئی تفصیل کے مطابق، ’’16 دسمبر ، 2014 کو پشاور کے ایک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی افراد ایک زخمی طالب علم کو اسپتال لے کر جاتے ہوئے‘‘۔

اب یہ تو واضح تھا کہ وائرل کی جا رہی تصویر پرانی ہے، حالاںکہ نیوز سرچ کے ذریعہ ہم نے اس بات کی تفتیش کی کیا پاکستان میں چل رہے آن لائن امتحان کے مطالبے کو لےکر طلبا کے مظاہروں میں کسی کی موت ہوئی ہے۔ 27 جنوری 2021 کو ڈان ڈام کام پر شائع ہوئی ایک خبر ملی جس میں بتایا گیا کہ، لاہور، منگل کے روز کیمپس کے امتحانات کے خلاف طلباء کے صوبہ بھر میں ہوئے مظاہروں نے بدصورت رخ اختیار کیا جب صوبائی دارالحکومت میں ایک نجی یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز نے متعدد طلبا پر لاٹھی چارج کر طلبا کو زخمی کردیا گیا۔ خبر میں مزید بتایا گیا، طلباء یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے اور مرکزی گیٹ سے یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب (یو سی پی) میں وائس چانسلر کے دفتر کے باہر دھرنا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ تبھی لاٹھیوں سے لیس سکیورٹی گارڈز نے گیٹ کھول کر طالب علموں پر حملہ کردیا۔ مکمل خبر میں ہمیں کہیں بھی کسی طالب علم کی موت سے جڑی کوئی معلومات نہیں ملی۔

وائرل پوسٹ سے منسلک تصدیق حاصل کرنے کے لئے جاگرن نیو میڈیا کے سینئر ایڈیٹر پرتیوش رنجن نے پاکستان کی سینئر صحافی لبنیٰ جرار نقوی سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل کی جا رہی پوسٹ شیئر کی۔ جس پر انہوں نے کہا کہ، ’’یہ تصویر پرانی ہے اور مظاہروں میں ابھی تک کسی بھی طالب علم کی جان نہیں گئی ہے۔ جتنی بھی جگہ اس قسم کے دعوی کئے جا رہےہیں وہ تمام بےبنیاد ہیں، انتظامیہ کی جانب سے بھی موت سے جڑے دعووں کی تردید کی جا چکی ہے‘‘۔

پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے ٹویٹر صارف شیو ارورا کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کو 458 صارفین فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر 2014 پشاور اسکول حملہ کی ہے، جسے اب فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

  • Claim Review : A student of UCP passed away due to Lathi Charge of Security Gaurds outside UCP today
  • Claimed By : Shiv Ar Ora
  • Fact Check : جھوٹ‎
جھوٹ‎
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later