X
X

فیکٹ چیک: صارفین کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے مقصد سے ایڈٹ کیا گیا کینسر متاثرہ کا پلاکارڈ

  • By: Umam Noor
  • Published: Dec 2, 2019 at 06:07 PM
  • Updated: Aug 9, 2020 at 05:01 PM

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ہم اکثر ایسی تصاویر دیکھتے ہیں جن پر کسی بیمار شخص کی فوٹو ہوتی ہے اور اس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’اسے شیئر کرنے سے مریض کو پیسے ملیں گے‘، یا کبھی ایسی تصاویر صارفین شیئر کرتے نظر آتے ہیں جس میں ’آمین‘ لکھ شیئر اور کمینٹ کرنے کی گزارش کی جاتی ہے۔ ایسی تصاویر محض صارفین کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے مقصد سے پھیلائی جاتی ہیں۔ ان تصاویر کو کلک بٹ بھی کہا جاتا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایسی تصاویر یا ویڈیو بھاری تعداد میں صارفین بغیر کچھ سوچے سمجھے شیئر کرتے ہیں۔

اسی ضمن میں ہمارے ہاتھ ایک ایسی تصویر لگی جس میں ایک بیمار بچی کے ہاتھ میں پلاکارڈ نظر آیا اور اس پر پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرنے کی گزارش کی گئی۔ پلاکارڈ کے مطابق بچی کے والیدن نہیں ہے تو شیئر کر کے دعا کی درخواست کی گئی ہے۔ وشواس نیوز نے اس پوسٹ کی پڑتال کی تو پتہ چلا کہ وائرل کی جا رہی تصویر میں بچی نے جو بلاکارڈ پکڑا ہے اس پر اصل میں کچھ اور لکھا ہے۔علاوہ ازیں وشواس نیوز نے بچی کے والدہ سے بھی رابطہ کیا اور انہوں نے بھی وائرل تصویر کو فرضی بتایا۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک گروپ ’’ انمول موتی اسلامک گروپ‘‘ کی جانب سے 19 نومبر کو ایک تصویر شیئر کی گئی جس پر ایک بیمار بچی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بچی کے ہاتھ میں ایک پلاکارڈ بھی ہے جس پر انگریزی میں لکھا ہے
”I have cancer, I dont have Parents! I have nobody to pray for me! Please 1 Like Amen Share”.
اس کا اردو میں ترجمہ ہے،’’ مجھے کینسر ہے، میرے والدین نہیں ہیں۔ میرے لئے دعا کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ 1 لائک اور شیئر آمین لکھ کر شیئر کریں‘‘۔

ہم نے پایا کہ سوشل میڈیا پر دیگر صارفین بھی اس تصویر کو ملتے جلتے فرضی حوالوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔

پڑتال

سب سے پہلے ہم نے تصویر کا رورس امیج سرچ کیا اور ہمارے ہاتھ متعدد ایسے لنک لگے جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔

دئے گئے لنک میں ہم این زیڈ ہیرالڈ پر گئے وہاں ہمیں اسی بچی کی تصویر نظر آئی جس کے فوٹو کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔ 8اکتوبر 2015 کو شائع ہوئی اس خبر کی تصویر میں بچی کے ہاتھ میں جو پلاکارڈ تھا اس پر آمین لکھنے یا شیئر کرنے کی گزارش نہیں بلکہ، اس پر انگریزی میں لکھا تھا
”Cancer it came, I beat it, End of story”.

خبر میں دی گئی تفصیل کے مطابق، ’’ میڈسن میرک نیوزی لینڈ کی رہنے والی ایک چھ سالہ بچی ہیں جو اپنے کینسر کے علاج کے لئے برطانیہ آئی ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے اپنی چھٹی یوم پیدائش منائی‘‘۔ خبر میں مزید بتایا گیا کہ متثارہ بچی کو پیٹ کا کینسر کا جس کے علاج کے لئے وہ برطانیہ 2013 میں اپنی والدہ کے ساتھ آئیں تھیں، کیوں کہ اس کا ٹرانسپلانٹ نیوزی لینڈ میں نہیں ہوتا ہے‘‘۔

خبر میں مزید بتایا گیا کہ ’بوول ٹرانسپلانٹ کے بعد میڈسن لمپھوپرولائفیریٹیو (پیٹ سے متعلق) کینسر میں مبتلاع ہو گئیں۔ خبر میں ہمیں میڈیسن میرک کا فیس بک اکاونٹ بھی نظر آیا۔

میڈیسن میرک کے فیس بک ہینل پر ہم گئے اور وہاں ہمیں 15 ستمبر 2015 کو شیئر کی گئی وہی تصویر ملی جسے اب فرضی حوالے کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ یہ فیس بک اکاونٹ میڈیسن کی والدہ الانا میرک کی جانب سے ہینڈل کیا جاتا ہے۔

اب باری تھی اس پوسٹ کی تصدیق کی جس کے لئے ہم نے میڈسن میرک کی والدہ الانا میرک سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل تصویر شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ، ’’تصویر کے ساتھ وائرل کیا جا رہا دعویٰ فرضی ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک گروپ”انمول موتی اسلامی گروپ‘‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس گروپ کے 248,239 ممبرس ہیں، علاوہ ازیں اس گروپ پر دینی پوسٹ شیئر کی جاتی ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی بچی کی تصویر کے ساتھ جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ فرضی ہے۔ بچی کی والدہ الانا نے بھی تصویر کو فرضی بتایا۔

  • Claim Review : I have cancer, I dont have Parents! I have nobody to pray for me! Please 1 Like Amen Share
  • Claimed By : FB Page- انمول موتی اسلامی گروپ (Islamic group)
  • Fact Check : جھوٹ‎
جھوٹ‎
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later