فیکٹ چیک: دیوگھر کے نام پر وائرل ہوئی اندور کی مسلم خواتین کی 4 سال پرانی تصویر
- By: Umam Noor
- Published: Jul 19, 2019 at 12:56 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ اس میں کچھ مسلم برقع پوش خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تمام خواتین ’کانوڑ‘ لئے ہوے نظر آرہی ہیں۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ منت کے لئی ملسم لڑکیاں جھاکھنڈ کے دیوگھر جا رہی ہیں۔
وشواس ٹیم نے جب اس پوسٹ کی پڑتال کی تو پتہ چلا کہ اس تصویر کا دیوگھر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل تصویر اندور کی ہے۔ 2015 میں ساون کے آخری پیر کو اندور میں ایک کانوڑ یاترا نکالی گئی تھی۔ تصویر اسی دوران کی ہے۔
کیا ہے وارئل پوسٹ میں
فیس بک پر ’شوم کمار ہندو‘ نام کے اکاونٹ سے مسلم خواتین کی کانوڑ والی پرانی تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا: ’’کئی مسلم لڑکیاں چلی دیوگھر….منت مانگنے۔ ہے بھگوان ان کی دعا قبول کر اور آزاد کر دوزخ سے‘‘۔
رواں ماں کی 17 تاریخ کو پوسٹ کی گئی اس تصویر کو اب تک 700 سے زیادہ مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔ فیس بک کے علاوہ یہ تصویر ٹویٹر اور واٹس ایپ پر بھی مختلف دعووں کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے۔
پڑتال
وشواس ٹیم نے سب سے پہلی وائرل ہو رہی تصویر کو گوگل رورس امیج میں اپ لوڈ کر کے سرچ کیا۔ متعدد پیجز کو اسکین کرنے کے بعد ہمیں اصل تصویر نیوز ٹریک لائو ڈاٹ کام پر ملی۔ 25 اگست 2015 کو شائع کی گئی ایک خبر میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ خبر کی سرخی تھی ’اندور نے رقم کی تارخ، کانوڑ لے کر نکلیں مسلم خواتین‘۔
خبر کے مطابق، ’’پہلی مرتبہ تمام مذاہب کے لوگوں نے کانوڑ یاترا نکالی۔ اس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی مذاہب کی خواتین نے کانوڑ اٹھائی اور جل چڑھایا۔ اس کانوڑ یاترا نے یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کا پیغام دیا‘‘۔
خبر میں بتایا گیا کہ یہ کانوڑ یاترا اندور کی ایک تنظیم کی جانب سے نکالی گئی تھی۔ یہ یاترا مدھوملن چوراہا واقع ہنومان مندر سے ہوتے ہوئے گیتا بھون مندر تک پہنچی تھی۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال جاری رکھی۔ ایک خبر ہمیں نیوز18 کی ویب سائٹ پر بھی ملی۔ 24 اگست 2015 کو شائع کی گئی خبر میں بتایا گیا کہ مسلم خواتین نے برقع پہن کر کانوڑ اٹھائے۔ خبر سے معلوم ہوا کہ سال 2015 میں ساون کے آخری پیر کے روز یہ کاونڑ یاترا نکالی گئی تھی۔ یاترا میں مسلم خواتین برقع میں نظر آئی تھیں۔ اسی طری دیگر مذاہب کی خواتین بھی اپنے ریاوتی لباس میں شامل ہوئی تھیں۔
اس کے بعد وشواس نیوز نے یو ٹیوب پر الگ- الگ کی ورڈ ٹائپ کے کے اندور کی 2015 کی کانوڑ یاترا کے ویڈیوز کو سرچ کرنا شروع کیا۔ اس کے لئے ہم نے گوگل ٹائم لائن ٹول کا استمعال کرتے ہوئے اپنی تفتیش کو 23 اگست سے لے کر 27 اگست کے درمیان رکھا۔ بالآخر ہمیں امیش چودھری نام کے شخص کے یو ٹیوب چینل پر کانوڑ یاترا کا ویڈیو مل ہی گیا۔ 26 اگست 2015 کو اپ لوڈ کئے گئے اس ویڈیو کو اب تک 1.86 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔
اس کے بعد وشواس ٹیم نے اندور نئی دنیا کے آئن لائن ایڈیٹر سدھیر گورے سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اندور علاقہ میں ایسا عام طور پر ہوتا ہے، جب مسلم خواتین ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے یاترا میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔ ایسے میں جلوس میں نہ صرف خواتین شامل ہوتی رہیں ہیں، بلکہ استقبال بھی کرتی ہیں۔
وائرل پوسٹ کی حقیقت کا پتہ لگانے کے بعد اب باری تھی اس فیس بک پیج کی حقیقت کا پتہ لگانے کی جس نے پرانی تصویر کی بنیاد پر جھوٹ پھیلایا۔ شوم کمار ہندو نام کے اس پیج کو 23 جون 2019 کو بنایا گیا۔ اسے فالو کرنے والوں کی تعداد 33 ہزار سے زائد ہے۔ پیج پر ایک خاص آئیڈیولاجی سے منسلک پوسٹ اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
نتیجہ: وشواس ٹیم کی جانچ میں پتہ چلا کہ کانوڑ والی مسلم خواتین کی تصویر دیوگھر کی نہیں، بلکہ اندور کی ہے۔ اصل تصویر 2015 کی ہے۔ وائرل پوسٹ میں کئے گئے تمام دعوےٰ فرضی ثابت ہوئے۔
مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔
- Claim Review : ہندو لڑکوں سے شادی کی منت کے لئے مسلم لڑکیاں جھارکھنڈ کے دیوگھر جا رہی ہیں۔
- Claimed By : FB User- Shiv Kumar Singh
- Fact Check : جھوٹ